EN हिंदी
دل بھر آئے اور ابر دیدہ میں پانی نہ ہو | شیح شیری
dil bhar aae aur abr-e-dida mein pani na ho

غزل

دل بھر آئے اور ابر دیدہ میں پانی نہ ہو

سلیم شاہد

;

دل بھر آئے اور ابر دیدہ میں پانی نہ ہو
یہ زمیں صحرا دکھائی دے جو بارانی نہ ہو

شوق اتنا سہل کیوں اس پار لے جائے مجھے
پھر پلٹ آؤں اگر دریا میں طغیانی نہ ہو

کان بجتے ہیں ہوا کی سیٹیوں پر رات بھر
چونک اٹھتا ہوں کہ آہٹ جانی پہچانی نہ ہو

ہو گئے بے خود تو ٹیسوں کا مزہ چھن جائے گا
روکتا ہوں درد کی اتنی فراوانی نہ ہو

تیرے ہونے سے مرے دل میں ہے یادوں کی چمک
چاند بجھ جائے اگر سورج میں تابانی نہ ہو

ڈھانپ لے مٹی سے تن اپنا اگر مقدور ہو
پیرہن کیسا اگر احساس عریانی نہ ہو

جی رہا ہوں میں کہ اوروں سے بھی ہے وابستگی
موت آ جائے اگر کوئی پریشانی نہ ہو

ڈال دے شاہدؔ شفق پر رات کی کالی ردا
میرے دروازے سے ظاہر گھر کی ویرانی نہ ہو