دل بیتاب مرگ ناگہاں باقی نہ رہ جائے
محبت کا یہ نازک امتحاں باقی نہ رہ جائے
سنبھل کر پھونک اے برق تپاں میرے نشیمن کو
کہیں عجلت میں شاخ آشیاں باقی نہ رہ جائے
مدد اے جوش گریہ خون دل شامل ہے اشکوں میں
کوئی اس سلسلہ کی داستاں باقی نہ رہ جائے
محبت کی حدیں اس عالم امکاں سے بالا ہیں
کسی کی جستجو میں لا مکاں باقی نہ رہ جائے
تری شان کرم پر کوئی حرف آئے معاذ اللہ
کوئی مے خوار اے پیر مغاں باقی نہ رہ جائے
مسافر عشق کی منزل سراپا راز ہوتی ہے
کہیں چہرے پہ گرد کارواں باقی نہ رہ جائے
نشیمن سے قفس تک سلسلہ ہو برق لرزاں کا
یہ طرز جور بھی اے آسماں باقی نہ رہ جائے
تمہارے سامنے آنسو بھی تھم تھم کر نکلتے ہیں
میں ڈرتا ہوں کہیں یہ داستاں باقی نہ رہ جائے
مشیرؔ اب ہر نظر میں ایک لطف خاص پاتا ہوں
کوئی عشوہ نصیب دشمناں باقی نہ رہ جائے
غزل
دل بیتاب مرگ ناگہاں باقی نہ رہ جائے
مشیر جھنجھانوی