EN हिंदी
دل بتا اور کیا ہے ہونے کو | شیح شیری
dil bata aur kya hai hone ko

غزل

دل بتا اور کیا ہے ہونے کو

رضا امروہوی

;

دل بتا اور کیا ہے ہونے کو
چوٹ کھائی ہے میں نے رونے کو

بے نوا خواب منتظر ہیں مرے
رات باقی کہاں ہے سونے کو

سوزن شوق کو شب ہجراں
صرف آنسو ملے پرونے کو

اپنی خوشیوں میں دوسروں کے غم
حوصلہ چاہئے سمونے کو

نہیں معلوم انتظام ہے کیا
دامن زیست کے بھگونے کو

نکہتوں کے دیار میں مجھ کو
آتشیں گل ملے پرونے کو

روز امید جاگ جاتی ہے
گمشدہ آرزو کے کھونے کو

کچھ تو احباب کام آئیں گے
کشتئ شوق کے ڈبونے کو

فکر اس کو ہو جس کے پاس ہو کچھ
کچھ نہیں میرے پاس کھونے کو

میں ہوں تنہائی کا سمندر ہے
غم کھڑے ہیں مجھے ڈبونے کو

آگہی صرف کام آئی رضاؔ
میرے داغ جنوں کے دھونے کو