EN हिंदी
دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا | شیح شیری
dil baham pahuncha badan mein tab se sara tan jala

غزل

دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا

میر تقی میر

;

دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا
آ پڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا

سرکشی ہی ہے جو دکھلاتی ہے اس مجلس میں داغ
ہو سکے تو شمع ساں دیجے رگ گردن جلا

بدر ساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ
ورنہ پہلے تھا مرا جوں ماہ نو دامن جلا

کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں
بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مرا آسن جلا

گرمی اس آتش کے پر کالے سے رکھے چشم تب
جب کوئی میری طرح سے دیوے سب تن من جلا

ہو جو منت سے تو کیا وہ شب نشینی باغ کی
کاٹ اپنی رات کو خار و خس گلخن جلا

سوکھتے ہی آنسوؤں کے نور آنکھوں کا گیا
بجھ ہی جاتے ہیں دیئے جس وقت سب روغن جلا

شعلہ افشانی نہیں یہ کچھ نئی اس آہ سے
دوں لگی ہے ایسی ایسی بھی کہ سارا بن جلا

آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا