EN हिंदी
دل ازل سے مرکز آلام ہے | شیح شیری
dil azal se markaz-e-alam hai

غزل

دل ازل سے مرکز آلام ہے

وامق جونپوری

;

دل ازل سے مرکز آلام ہے
شیشۂ آغاز میں انجام ہے

چشم ساقی کا یہ سارا کام ہے
نشۂ مے مفت میں بدنام ہے

بادۂ احمر سے خالی جام ہے
دل تو ہے لیکن برائے نام ہے

وجہ تسکیں دل کی دھڑکن بن گئی
اب ہوا چلتی ہے کچھ آرام ہے

مرحبا اے کاسۂ چرخ کہن
گردشیں جب تک ہیں تیرا نام ہے

تیری قسمت ہی میں زاہد مئے نہیں
شکر تو مجبوریوں کا نام ہے