دل ازل سے مرکز آلام ہے
شیشۂ آغاز میں انجام ہے
چشم ساقی کا یہ سارا کام ہے
نشۂ مے مفت میں بدنام ہے
بادۂ احمر سے خالی جام ہے
دل تو ہے لیکن برائے نام ہے
وجہ تسکیں دل کی دھڑکن بن گئی
اب ہوا چلتی ہے کچھ آرام ہے
مرحبا اے کاسۂ چرخ کہن
گردشیں جب تک ہیں تیرا نام ہے
تیری قسمت ہی میں زاہد مئے نہیں
شکر تو مجبوریوں کا نام ہے

غزل
دل ازل سے مرکز آلام ہے
وامق جونپوری