دل اور طرح آج تو گھبرایا ہوا ہے
اے بے خبری چونک کوئی آیا ہوا ہے
سلگے ہوئے بوسے یہ ہوا کے ہیں فنا کے
دل خوف سے ہر پھول کا تھرایا ہوا ہے
تاکہ نہ نگاہوں کو اندھیرے نظر آئیں
آئینہ اجالوں نے یہ چمکایا ہوا ہے
اے رات نہ فاخر ہو ستاروں کی چمک پر
وہ چاند بھی تیرا ہے جو گہنایا ہوا ہے
غزل
دل اور طرح آج تو گھبرایا ہوا ہے
آصف رضا