دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا
دریا سے یہ موتی نکلا تھا دریا ہی میں جا کر ڈوب گیا
احوال جوانی پیری میں کیا عرض کروں اک قصہ ہے
وہ طرز گئی وہ وضع گئی انداز گیا اسلوب گیا
لا ریب خموشی نے تیری تاثیر دکھا دی مستوں کو
بے باک جو مے کش تھا ساقی اس بزم سے وہ محجوب گیا
بے راحلہ و بے زاد سفر رحمت پہ بھروسا فرما کر
جو ملک عدم میں بسنے کو اس طرح گیا وہ خوب گیا
بد حال بہت تھا اس پر بھی اے یار کسی نے لی نہ خبر
بڑ مار کے تیرے کوچے سے آخر کو ترا مجذوب گیا
رضواں نے کیا در خلد کا وا حوریں ہوئیں صدقے آ آ کر
غلماں نے قدم چومے اس کے جو تیری طرف منسوب گیا
طاقت جو نہیں اب حیرت سے تصویر کا عالم رہتا ہے
وہ آخر شب کی آہ گئی وہ لغرۂ محبوب گیا
یاں اپنی سزا بھگتی اس نے رحمت کی نظر ہوگی اس پر
ہر چند خطا کار الفت کوچے سے ترے معتوب گیا
حیرت ہے عبث اے جو ان بیش بہا منصوبوں پر
اس طرح کے موتی تب نکلے جب زیر زمیں میں ڈوب گیا
کیا اس کا سبب میں عرض کروں کچھ واقعے ایسے پیش آئے
میں روتا ہوا آیا تھا یہاں چپ یاں سے گیا مرعوب گیا
کوچے میں ترے اب شادؔ نہیں لے پاک خدا نے کی یہ زمیں
صد شکر سرائے فانی سے آخر وہ سگ معیوب گیا
غزل
دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا
شاد عظیم آبادی