دل اگر مائل عتاب نہ ہو
درد کا درد پھر جواب نہ ہو
ایسی کروٹ بھی کوئی کروٹ ہے
جس کے پہلو میں انقلاب نہ ہو
کیوں چمک اٹھا آج مے خانہ
تیرے ساغر میں آفتاب نہ ہو
بحر ہستی میں نا خدائے جہاں
زندگی صورت حباب نہ ہو
دل سے کوشش کرے اگر انساں
غیر ممکن ہے کامیاب نہ ہو
کیوں پریشان رہتا ہے غواصؔ
تیری تقدیر محو خواب نہ ہو
غزل
دل اگر مائل عتاب نہ ہو
غواص قریشی