EN हिंदी
دل اگر مائل عتاب نہ ہو | شیح شیری
dil agar mail-e-itab na ho

غزل

دل اگر مائل عتاب نہ ہو

غواص قریشی

;

دل اگر مائل عتاب نہ ہو
درد کا درد پھر جواب نہ ہو

ایسی کروٹ بھی کوئی کروٹ ہے
جس کے پہلو میں انقلاب نہ ہو

کیوں چمک اٹھا آج مے خانہ
تیرے ساغر میں آفتاب نہ ہو

بحر ہستی میں نا خدائے جہاں
زندگی صورت حباب نہ ہو

دل سے کوشش کرے اگر انساں
غیر ممکن ہے کامیاب نہ ہو

کیوں پریشان رہتا ہے غواصؔ
تیری تقدیر محو خواب نہ ہو