EN हिंदी
دل آئینہ ہے مگر اک نگاہ کرنے کو | شیح شیری
dil aaina hai magar ek nigah karne ko

غزل

دل آئینہ ہے مگر اک نگاہ کرنے کو

احمد جاوید

;

دل آئینہ ہے مگر اک نگاہ کرنے کو
یہ گھر بنایا ہے اس نے تباہ کرنے کو

گل وصال ابھی دیکھا نہ تھا کہ آ پہنچی
شب فراق بھی آنکھیں سیاہ کرنے کو

گلیم و تخت اتارے ہیں غیب سے اس نے
مجھے فقیر تجھے بادشاہ کرنے کو

سجے ہیں دشت و بیاباں عجب قرینے سے
تجھے سوار مجھے گرد راہ کرنے کو

ملی مجھے تری ہمسائیگی سو دنیا میں
تمیز مرتبۂ کوہ و کاہ کرنے کو

دمیدہ ہر شجر گرد باد نخل جنوں
ہمارے چاک گریباں سے راہ کرنے کو

دل گداختہ و چشم تر ہی کافی ہے
فتوح مملکت مہر و ماہ کرنے کو