دل آئینہ ہے مگر اک نگاہ کرنے کو
یہ گھر بنایا ہے اس نے تباہ کرنے کو
گل وصال ابھی دیکھا نہ تھا کہ آ پہنچی
شب فراق بھی آنکھیں سیاہ کرنے کو
گلیم و تخت اتارے ہیں غیب سے اس نے
مجھے فقیر تجھے بادشاہ کرنے کو
سجے ہیں دشت و بیاباں عجب قرینے سے
تجھے سوار مجھے گرد راہ کرنے کو
ملی مجھے تری ہمسائیگی سو دنیا میں
تمیز مرتبۂ کوہ و کاہ کرنے کو
دمیدہ ہر شجر گرد باد نخل جنوں
ہمارے چاک گریباں سے راہ کرنے کو
دل گداختہ و چشم تر ہی کافی ہے
فتوح مملکت مہر و ماہ کرنے کو
غزل
دل آئینہ ہے مگر اک نگاہ کرنے کو
احمد جاوید