دکھلا نہ خال ناف تو اے گل بدن مجھے
ہر لالہ یاں ہے نافۂ مشک ختن مجھے
ہمدم وبال دوش نہ کر پیرہن مجھے
کانٹا سا ہے کھٹکتا مرا تن بدن مجھے
پھرتا لیے چمن میں ہے دیوانہ پن مجھے
زنجیر پا ہے موج نسیم چمن مجھے
تسبیح دور بزم میں دیکھو امام کو
بخشی ہے حق نے زیب سر انجمن مجھے
اے میرے یاسمن ترے دندان آبدار
گلشن میں ہیں رلاتے گل یاسمن مجھے
محراب کعبہ جب سے ہے تیرا خم کماں
صید حرم سمجھتے ہیں ناوک فگن مجھے
ہے تن میں ریشہ ہائے نئے خشک استخواں
کیوں کھینچتا ہے کانٹوں میں اے ضعف تن مجھے
اے لب مسی کو پھینک کہ نیلم ہے کم بہا
یاقوت دے یا دے کوئی لعل یمن مجھے
ہوں شمع یا کہ شعلہ خبر کچھ نہیں مگر
فانوس ہو رہا ہے مرا پیرہن مجھے
اک سرزمین لالہ بہار و خزاں میں ہوں
یکساں ہے داغ تازہ و داغ کہن مجھے
خسرو سے تیشہ بولا جو چاٹوں نہ تیرا خوں
شیریں نہ ہووے خون سر کوہ کن مجھے
رخ پر تمہارے دام جو ڈالا ہے سبزے نے
آتا نظر ہے دیدۂ عنقا دہن مجھے
یہ دل وہ ہے کہ کر دے زمیں آسماں کو خاک
اک دم کو برق دے جو پنہا پیرہن مجھے
کوچے میں تیرے کون تھا لیتا بھلا خبر
شب چاندنی نے آ کے پہنایا کفن مجھے
دکھلاتا آسماں سے ہے روئے زمیں کی سیر
اے رشک ماہ تیری جبیں کا شکن مجھے
رکھتا ہے چشم لطف پہ کس کس ادا کے ساتھ
دیتا ہے جام ساقی پیماں شکن مجھے
ہے جذب دل درست تو چاہ فراق سے
کھینچے گی تیری زلف شکن در شکن مجھے
دکھلاتا اک ادا میں ہے سو سو طرح بناؤ
اس سادہ پن کے ساتھ ترا بانکپن مجھے
جیسے کنویں میں ہو کوئی تارا چمک رہا
دل سوجھتا ہے یوں تہ چاہ ذقن مجھے
آ کر اسے بھی دو کبھی آنکھیں ذرا دکھا
آنکھیں دکھا رہا ہے غرال ختن مجھے
آ اے مرے چمن کہ ہوا میں تری ہوا
صحرائے دل ہوا ہے چمن در چمن مجھے
یا رب یہ دل ہے یا کہ ہے آئینہ نظر
دکھلا رہا ہے سیر و سفر در وطن مجھے
آیا ہوں نور لے کے میں بزم سخن میں ذوقؔ
آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہل سخن مجھے
غزل
دکھلا نہ خال ناف تو اے گل بدن مجھے
شیخ ابراہیم ذوقؔ