EN हिंदी
دکھائی جائے گی شہر شب میں سحر کی تمثیل چل کے دیکھیں | شیح شیری
dikhai jaegi shahr-e-shab mein sahar ki tamsil chal ke dekhen

غزل

دکھائی جائے گی شہر شب میں سحر کی تمثیل چل کے دیکھیں

آفتاب اقبال شمیم

;

دکھائی جائے گی شہر شب میں سحر کی تمثیل چل کے دیکھیں
سر صلیب ایستادہ ہوگا خدائے انجیل چل کے دیکھیں

گلوں نے بند قبا ہے کھولا، ہوا سے بوئے جنوں بھی آئے
کریں گے اس موسم وفا میں ہم اپنی تکمیل چل کے دیکھیں

غنیم شب کے خلاف اب کے زیاں ہوئی غیب کی گواہی
پڑا ہوا خاک پر شکستہ پر ابابیل چل کے دیکھیں

چنے ہیں وہ ریزہ ریزہ منظر، لہو لہو ہو گئی ہیں آنکھیں
چلو نا! اس دکھ کے راستے پر سفر کی تفصیل چل کے دیکھیں

فضا میں اڑتا ہوا کہیں سے عجب نہیں عکس برگ آئے
خزاں کے بے رنگ آسماں سے اٹی ہوئی جھیل چل کے دیکھیں

لڑھک گیا شب کا کوہ پیما زمیں کی ہمواریوں کی جانب
کہیں ہوا گل نہ کر چکی ہو انا کی قندیل چل کے دیکھیں