EN हिंदी
دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی | شیح شیری
dikhai dete hain dhund mein jaise sae koi

غزل

دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی

گلزار

;

دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی
مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی

مرے محلے کا آسماں سونا ہو گیا ہے
بلندیوں پہ اب آ کے پیچے لڑائے کوئی

وہ زرد پتے جو پیڑ سے ٹوٹ کر گرے تھے
کہاں گئے بہتے پانیوں میں بلائے کوئی

ضعیف برگد کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا ہے
جٹائیں آنکھوں پہ گر رہی ہیں اٹھائے کوئی

مزار پہ کھول کر گریباں دعائیں مانگیں
جو آئے اب کے تو لوٹ کر پھر نہ جائے کوئی