دکھائی دیں گی سبھی ممکنات کاغذ پر
ذرا اتار تو لوں سب جہات کاغذ پر
مری کہانی بہت دیر سے رکی ہوئی ہے
وہ کھو گیا ہے کہیں رکھ کے ہاتھ کاغذ پر
ہماری تازہ غزل میں بھی عکس ہے اس کا
وہ ایک اشک جو ٹپکا تھا رات کاغذ پر
میں تھک چکا ہوں فقط رائیگانیاں لکھتے
انڈیل دوں نہ کہیں اب دوات کاغذ پر
کسے خبر کہ یہ ردی میں بیچ دی جائے
بنا رہا ہوں میں جو کائنات کاغذ پر
میں لکھ رہا تھا تری خواب گاہ کی یادیں
کہ سو گیا تھا وہیں رکھ کے ہاتھ کاغذ پر
غزل
دکھائی دیں گی سبھی ممکنات کاغذ پر
سجاد بلوچ