دکھائی دیں گے جو گل میز پر قرینے سے
ہوائیں چھیڑیں گی آ کر کھلے دریچے سے
خلا میں آج سکوں اپنا ڈھونڈھتا ہے وہی
بہل گیا تھا جو بچہ کبھی کھلونے سے
تمہارے دل میں ہے اک کرب سا کسی کے لیے
یہ بات ہم نے پڑھی ہے تمہارے چہرے سے
جلے دل تو یقیناً لبوں پہ ہوگی کراہ
دھواں تو پھیلے گا جنگل میں آگ لگنے سے
فضا میں صورت شاہیں بلند ہو کر دیکھ
دکھائی دیں گے یہ اونچے درخت چھوٹے سے
سنائی دی ہے کہیں کیا خزاں کے پانوں کی چاپ
کہ پھول آج ہیں گلشن میں سہمے سہمے سے
چلو کہ پوچھیں کسی سوختہ جگر سے یہ بات
گریز ہوتا ہے کب آدمی کو جینے سے
وفا نہ ٹوٹنے والی ہے ایک شے شارقؔ
کرو وفا کو نہ تعبیر کچے دھاگے سے

غزل
دکھائی دیں گے جو گل میز پر قرینے سے
شارق جمال