دکھائے گی اثر دل کی پکار آہستہ آہستہ
بجیں گے آپ کے دل کے بھی تار آہستہ آہستہ
نکلتا ہے شگافوں سے غبار آہستہ آہستہ
تھمے گی آنکھ سے اشکوں کی دھار آہستہ آہستہ
رہی مشق ستم جاری اگر کچھ دن جناب ایسے
ملیں گے خاک میں سب جاں نثار آہستہ آہستہ
مقدر اس کا مرجھانا ہی تو ہے بعد کھلنے کے
کلی پر یا خدا آئے نکھار آہستہ آہستہ
بنا ہے ناظم گلشن کوئی صیاد اب شاید
پرندے ہو رہے ہیں سب فرار آہستہ آہستہ
محبت کے مریضوں کا مداوا ہے ذرا مشکل
اترتا ہے صداؔ ان کا بخار آہستہ آہستہ
غزل
دکھائے گی اثر دل کی پکار آہستہ آہستہ
صدا انبالوی