دکھا رہی ہے جہاں دھوپ اب اثر اپنا
بکھیرتا تھا وہیں سایہ اک شجر اپنا
پھلوں کا اب کے بھی پہلے سے ہو گیا سودا
درخت چھو نہ سکیں گے کوئی ثمر اپنا
بہت ہی تیز تھا خنجر ہوا کے ہاتھوں میں
بچا سکا کوئی طائر نہ بال و پر اپنا
کبھی جو سامنے آیا تو چھپ گیا ہوں کبھی
یہ ایک کھیل رہا خود سے عمر بھر اپنا
ابھی تو باقی ہیں منزل کی ٹھوکریں کچھ اور
یہیں پہ ختم نہیں ہے ابھی سفر اپنا
یہ کون شمع لئے پیش پیش چلتا رہا
دکھائی بھی نہ دیا کون تھا خضر اپنا
نظام جبر کی وہ کر رہا ہے پھر توسیع
بڑھا رہا ہے وہ پھر حلقۂ اثر اپنا
کوئی نہیں ہے جو شمشیر چھین لے اس سے
چھپائے پھرتا ہے ہر ایک شخص سر اپنا
کسی پہ کھلتا بھی کیا اپنا کرب غم محسنؔ
نہ کوئی مرثیہ خواں تھا نہ نوحہ گر اپنا
غزل
دکھا رہی ہے جہاں دھوپ اب اثر اپنا
محسن زیدی