دکھا نہ دست شناسوں کو ہاتھ، فال نہ پوچھ
وہ بات جس سے ہو سن کر تجھے ملال نہ پوچھ
برہنہ تیغ تنی ہے سروں پہ انساں کے
ہلال عید نہیں ہے یہ میرے لال! نہ پوچھ
ہم اپنے کتنے عزیزوں کے نام گنوائیں
کہ اپنے ایسے ہزاروں ہیں خستہ حال نہ پوچھ
فراز دار پہ ہم لوگ کب نہ تھے مخلصؔ
زمانہ اب کے چلا ہے وہ ہم سے چال نہ پوچھ
غزل
دکھا نہ دست شناسوں کو ہاتھ، فال نہ پوچھ
مخلص وجدانی