EN हिंदी
دکھا کر آئنے میں اپنا چہرہ کھو گئے ہیں | شیح شیری
dikha kar aaine mein apna chehra kho gae hain

غزل

دکھا کر آئنے میں اپنا چہرہ کھو گئے ہیں

خواجہ رضی حیدر

;

دکھا کر آئنے میں اپنا چہرہ کھو گئے ہیں
یہ دنیا بھی تماشا تھی تماشا ہو گئے ہیں

مسافر ہیں سفر میں بود و باش اپنی یہی ہے
جہاں پر کوئی سایہ مل گیا ہے سو گئے ہیں

بہ ظاہر ایک صحرا ہیں مگر ایسا نہیں ہے
ہماری خاک کو کتنے ہی دریا رو گئے ہیں

وہ موسم اور منظر جن سے ہم تم خوش نظر تھے
وہ موسم اور منظر درمیاں سے کھو گئے ہیں

قدم آہستہ رکھو کہہ رہے ہیں خشک پتے
درختوں پر تھکے ہارے پرندے سو گئے ہیں

نہیں احساس تم کو رائیگانی کا ہماری
سہولت سے تمہیں شاید میسر ہو گئے ہیں

رفاقت میں یہ کیسا سانحہ گزرا ہے ہم پر
بدن بیدار ہیں لیکن مقدر سو گئے ہیں

کبھی سیراب جو لمحے کیے تھے خون دل سے
وہی لمحے رضیؔ آنکھوں میں کانٹے بو گئے ہیں