دیوار و در تھے جان سرائے نکل گئے
اس بار سائبان سے سائے نکل گئے
دنیا مشاعرہ ہے سو زخموں کی داد ہو
ہم آئے چند شعر سنائے نکل گئے
ہم اپنے دل کے شوق بھلا کب نکالیں گے
تنخواہ میں تو صرف کرائے نکل گئے
جس نے عمل کیا اسے مہنگا بہت پڑا
فارغ تو دے کے مفت میں رائے نکل گئے
آنکھیں جھپک رہا تھا کہ منظر بدل گیا
کچھ رنگ پھلجڑی میں سمائے نکل گئے
غزل
دیوار و در تھے جان سرائے نکل گئے
ذیشان ساجد