EN हिंदी
دیوار و در سا چاہیے دیوار و در مجھے | شیح شیری
diwar-o-dar sa chahiye diwar-o-dar mujhe

غزل

دیوار و در سا چاہیے دیوار و در مجھے

وشال کھلر

;

دیوار و در سا چاہیے دیوار و در مجھے
دیوانگی میں یاد نہیں اپنا گھر مجھے

تو تھا تو تھا وجود میں اک آئنہ مرے
اب غفلتوں سے ملتی ہے اپنی خبر مجھے

پلکوں پہ نیند نیند میں رکھتا ہے خواب پھر
دیتا ہے دستکیں بھی وہی رات بھر مجھے

جی چل پڑا خزاؤں کی جانب اداس شب
یہ لگ گئی بہار میں کس کی نظر مجھے

آباد ہو گئے تھے ترے راستے جہاں
ملتا ہے اس گلی میں ہی اپنا نگر مجھے