دیوار اب کہیں نہ کوئی در دکھائی دے
چاروں طرف بس ایک سمندر دکھائی دے
گھر پر نظر کروں تو بیابان سا لگے
اور دشت بے کنار مجھے گھر دکھائی دے
خوابوں کے درمیان ہے مدت سے ایک جنگ
میدان کارزار نہ لشکر دکھائی دے
یہ کیا کہ پھر بھی جسم ہے اپنا لہو لہان
آتا ہوا کہیں سے نہ پتھر دکھائی دے
ہر شام زندگی کا نیا خواب لے کے آئے
ہر صبح اپنی موت کا منظر دکھائی دے
اس طرح پڑھ رہے ہیں وہ تحریر ہاتھ کی
ہاتھوں میں جیسے میرا مقدر دکھائی دے
تیر و کمان آپ بھی محسنؔ سنبھالیے
جب دوستی کی آڑ میں خنجر دکھائی دے
غزل
دیوار اب کہیں نہ کوئی در دکھائی دے
محسن زیدی