دیوانوں پر ہاتھ نہ ڈالو اس ضد میں پچھتاؤ گے
سارے شہر میں کس کس کو تم زنجیریں پہناؤ گے
کیا صحرا کی تپتی مٹی اپنا سر نہ اٹھائے گی
تم تو یہ دیوار بڑھا کر صحرا تک لے جاؤ گے
ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ تم مختار سریر کوہ بنو
لیکن تم سے ملنا کیا ہے پتھر ہی برساؤ گے
بزم آرائی اچھی لیکن ایسی بزم آرائی کیا
دامن دامن آگ لگا دی اور چراغ جلاؤ گے
پھول ہیں کوئی خار نہیں ہم آؤ ہم میں آ بیٹھو
خوشبو میں آباد رہوگے خوشبو ہی کہلاؤ گے
آنکھیں نیچی کر لو رات کے رستے نا ہموار بھی ہیں
چاند کو تکتے چلنے والو دیکھو ٹھوکر کھاؤ گے
حرف تو کار کلک و زباں ہے نقل حرف تو آساں ہے
زخم کوئی تصویر نہیں ہے جس کے نقش بناؤ گے
در کو چھوڑا دیر کو چھوڑا دار میں اب ہے دل یارو
کیا عنوان تراشو گے اب کیا الزام لگاؤ گے
غزل
دیوانوں پر ہاتھ نہ ڈالو اس ضد میں پچھتاؤ گے
محشر بدایونی