دیوانگی نے کیا کیا عالم دکھا دیے ہیں
پریوں نے کھڑکیوں کے پردے اٹھا دیے ہیں
اللہ رے فروغ اس رخسار آتشیں کا
شمعوں کے رنگ مثل کافور اڑا دیے ہیں
آتش نفس ہوا ہے گل زار کی ہمارے
بجلی گری ہے غنچے جب مسکرا دیے ہیں
سو بار گل کو اس نے تلووں تلے ملا ہے
کٹوا کے سرو شمشاد اکثر جلا دیے ہیں
انسان خوبرو سے باقی رہے تفاوت
اس واسطے پری کو دو پر لگا دیے ہیں
ابروئے کج سے خون عشاق کیا عجب ہے
تلوار نے نشان لشکر مٹا دیے ہیں
کس کس کو خوب کہئے اللہ نے بتوں کو
کیا گوش و چشم کیا لب کیا دست و پا دیے ہیں
بے یار بام پر جو وحشت میں چڑھ گیا ہوں
پرنالے روتے روتے میں نے بہا دیے ہیں
وصف کمان ابرو جو کیجیے سو کم ہے
بے تیر بسملوں کے تودے لگا دیے ہیں
رویا ہوں یاد کر کے میں تیری تند خوئی
صرصر نے جب چراغ روشن بجھا دیے ہیں
سوز دل و جگر کی شدت پھر آج کل ہے
پھر پہلوؤں کے تکیے مشعل بنا دیے ہیں
شمعوں کو تو نے دل سے پروانوں کے اتارا
آنکھوں سے بلبلوں کی گلشن گرا دیے ہیں
وہ بادہ کش ہوں میری آواز پا کو سن کر
شیشوں نے سر حضور ساغر جھکا دیے ہیں
اشکوں سے خانۂ تن آتشؔ خراب ہوگا
قصر سپہر رفعت باراں نے ڈھا دیے ہیں
غزل
دیوانگی نے کیا کیا عالم دکھا دیے ہیں
حیدر علی آتش