دیوانگی کی راہ میں گم سم ہوا نہ تھا!
دنیا میں اپنا کوئی کہیں آشنا نہ تھا!
دھڑکن کا درد جسم کو تڑپا کے رہ گیا
رگ رگ میں ایک شور مسیحا بپا نہ تھا!
اک کشمکش کے بعد تعلق نہیں رہا
بیگانہ ہو کے ہم سے وہ لیکن خفا نہ تھا!
دیوار و در پہ پردے لٹکتے تھے ہر طرف
افلاس کونے کونے میں لیکن چھپا نہ تھا!
زنجیریں لاکھ ٹوٹیں مگر خوف حکمراں
مجبوریوں کے جال سے کوئی رہا نہ تھا!
اک اپنی چیخ سے لرز اٹھے تھے بام و در
آئی نہ بازگشت کوئی ہم نوا نہ تھا!
آتے رہے نہ جانے کہاں سے خطوں پہ خط
بے نور چشم نم نے کسی کو پڑھا نہ تھا!
غزل
دیوانگی کی راہ میں گم سم ہوا نہ تھا!
باقر مہدی