دیوانے اتنے جمع ہوئے شہر بن گیا
جنگل کے حق میں جوش جنوں زہر بن گیا
اچٹی جو نیند دل کا ہر اک زخم جاگ اٹھا
یادوں کا چاند پچھلے پہر قہر بن گیا
یہ زیست ہے فضیلؔ کہ دریائے درد ہے
ہر لمحہ غم کی امڈی ہوئی لہر بن گیا
غزل
دیوانے اتنے جمع ہوئے شہر بن گیا
فضیل جعفری