دیوانہ ہوں بکھرے موتی چنتا ہوں
لمحہ لمحہ جوڑ کے صدیاں بنتا ہوں
تنہا کمرے سونا آنگن رات اداس
پھر بھی گھر میں سرگوشی سی سنتا ہوں
مجھ کو دیمک چاٹ رہی ہے سوچوں کی
میں اپنے اندر ہی اندر گھنتا ہوں
ہنستے پھول کہاں ہیں میری قسمت میں
میں تو بس مرجھائی کلیاں چنتا ہوں
کہنے کو خاموش ہے میری ذات مگر
سننے کو تو سب کی باتیں سنتا ہوں
آزرؔ اک موہوم سی ہے امید ابھی
جس کے سہارے خواب سنہرے بنتا ہوں

غزل
دیوانہ ہوں بکھرے موتی چنتا ہوں
مشتاق آذر فریدی