دیپ سے دیپ جلاؤ تو کوئی بات بنے
گیت پر گیت سناؤ تو کوئی بات بنے
قطرہ قطرہ نہ پکارو مجھے بہتی ندیوں
موج در موج بلاؤ تو کوئی بات بنے
رات اندھی ہے گزر جائے گی چپکے چپکے
جال کرنوں کا بچھاؤ تو کوئی بات بنے
سامنے اپنے ہی خاموش کھڑا ہوں کب سے
درمیاں تم بھی جو آؤ تو کوئی بات بنے
داستاں چاند ستاروں کی سنانے والو
تم مرا کھوج لگاؤ تو کوئی بات بنے
منتظر میں تو بہ ہر گام ہوں ساحل کی طرح
صورت موج تم آؤ تو کوئی بات بنے
جھانکتا کون ہے اب دل کے شگافوں میں رشیدؔ
زخم چہرے پہ سجاؤ تو کوئی بات بنے

غزل
دیپ سے دیپ جلاؤ تو کوئی بات بنے
رشید قیصرانی