دین و دل پہلی ہی منزل میں یہاں کام آئے
اور ہم راہ وفا میں کوئی دو گام آئے
تم کہو اہل خرد عشق میں کیا کیا بیتی
ہم تو اس راہ میں ناواقف انجام آئے
لذت درد ملی عشرت احساس ملی
کون کہتا ہے ہم اس بزم سے ناکام آئے
وہ بھی کیا دن تھے کہ اک قطرۂ مے بھی نہ ملا
آج آئے تو کئی بار کئی جام آئے
اک حسیں یاد سے وابستہ ہیں لاکھوں یادیں
اشک امنڈ آتے ہیں جب لب پہ ترا نام آئے
سی لیے ہونٹ مگر دل میں خلش رہتی ہے
اس خموشی کا کہیں ان پہ نہ الزام آئے
چند دیوانوں سے روشن تھی گلی الفت کی
ورنہ فانوس تو لاکھوں ہی سر بام آئے
یہ بھی بدلے ہوئے حالات کا پرتو ہے کہ وہ
خلوت خاص سے تا جلوہ گہ عام آئے
ہو کے مایوس میں پیمانہ بھی جب توڑ چکا
چشم ساقی سے پیا پے کئی پیغام آئے
شہر میں پہلے سے بد نام تھے یوں بھی زیدیؔ
ہو کے مے خانے سے کچھ اور بھی بد نام آئے
غزل
دین و دل پہلی ہی منزل میں یہاں کام آئے
علی جواد زیدی