دیدنی ہے زخم دل اور آپ سے پردا بھی کیا
اک ذرا نزدیک آ کر دیکھیے ایسا بھی کیا
ہم بھی ناواقف نہیں آداب محفل سے مگر
چیخ اٹھیں خاموشیاں تک ایسا سناٹا بھی کیا
خود ہمیں جب دست قاتل کو دعا دیتے رہے
پھر کوئی اپنی ستم گاری پہ شرماتا بھی کیا
جتنے آئینے تھے سب ٹوٹے ہوئے تھے سامنے
شیشہ گر باتوں سے اپنی ہم کو بہلاتا بھی کیا
ہم نے ساری زندگی اک آرزو میں کاٹ دی
فرض کیجے کچھ نہیں کھویا مگر پایا بھی کیا
بے محابا تجھ سے اکثر سامنا ہوتا رہا
زندگی تو نے مجھے دیکھا نہ ہو ایسا بھی کیا
بے طلب اک جستجو سی بے سبب اک انتظار
عمر بے پایاں کا اتنا مختصر قصہ بھی کیا
غیر سے بھی جب ملا اخترؔ تو ہنس کر ہی ملا
آدمی اچھا ہو لیکن اس قدر اچھا بھی کیا
غزل
دیدنی ہے زخم دل اور آپ سے پردا بھی کیا
اختر سعید خان