دیدنی ہے ہماری زیبائی
ہم کہ ہیں حسن کے تمنائی
بس یہ ہے انتہا تعلق کی
ذکر پر ان کے آنکھ بھر آئی
تو نہ کر اپنی محفلوں کو اداس
راس ہے ہم کو رنج تنہائی
ہم تو کہہ دیں سلیمؔ حال ترا
کب وہاں ہے کسی کی شنوائی
اور تو کیا دیا بہاروں نے
بس یہی چار دن کی رسوائی
ہم کو کیا کام رنگ محفل سے
ہم تو ہیں دور کے تماشائی
وہ جنوں کو بڑھائے جائیں گے
ان کی شہرت ہے میری رسوائی
معتقد ہیں ہماری وحشت کے
شہر میں جس قدر ہیں سودائی
عشق صاحب نے دل پہ دستک دی
آئیے مرشدی و مولائی
یہ زمانے کا جبر ہے کہ سلیمؔ
ہو کے میرے بنے ہیں سودائی

غزل
دیدنی ہے ہماری زیبائی
سلیم احمد