دید کے بدلے سدا دیدۂ تر رکھا ہے
ہم کو کیوں راندۂ درگاہ نظر رکھا ہے
شب کی دہلیز سے اس سمت ہیں راہیں کیسی
پردۂ خواب میں یہ کیسا سفر رکھا ہے
سایۂ وصل محبت کی وہ خلوت نہ سہی
یہ بھی کافی ہے خیالوں میں گزر رکھا ہے
کتنے اوصاف مجھے اپنے عطا اس نے کئے
ذوق تخلیق دیا مجھ میں ہنر رکھا ہے
شاخ در شاخ تری یاد کی ہریالی ہے
ہم نے شاداب بہت دل کا شجر رکھا ہے
ہر گھڑی مجھ پہ نئے اور جہاں کھلتے ہیں
سو بھی جاؤں تو کھلا ذہن کا در رکھا ہے
اس کو قدرت ہے جسے جیسا بھی تخلیق کرے
شکر ہے اس کا مجھے اس نے بشر رکھا ہے
غزل
دید کے بدلے سدا دیدۂ تر رکھا ہے
سلیم فگار