دید گل زار جہاں کیوں نہ کریں سیر تو ہے
ایک دن جانتے ہیں خاتمہ بالخیر تو ہے
رندؔ واعظ سے عبث کرتے ہو شر خیر تو ہے
دونوں گھر ایک ہیں کعبہ نہ سہی دیر تو ہے
خوشہ چیں بنتا ہے کیوں مزرع ہر دہقاں کا
وصف انسان نہیں یہ صفت طیر تو ہے
نہ بسر ہووے گی بے نشہ قدح خواروں کی
ہو اگر مے کی منادی ہے فلک سیر تو ہے
آشنا بحر محبت کے شناور ہیں سب
تو بھی اس آگ کے دریا کو اگر پیر تو ہے
رند و واعظ کے بکھیڑوں میں بھلا کون پڑے
سب کو معلوم ہے ان دونوں میں اک بیر تو ہے
مرغ دل مردم بیمار پہ صدقہ کر ڈال
واسطے صحت جان کے عمل طیر تو ہے
جیسے اڑتی سی سنی ہے خبر قتل سفیر
پوچھتا پھرتا ہوں اک ایک سے کیوں خیر تو ہے
ساقیا چند گھڑے مے کے قدح خواروں میں
صرف للٰلہ اگر ہوں عمل خیر تو ہے
در گزر ہوتا ہے اور ہوگا بقدر امکاں
آخر کار یہ پاپوش و سر غیر تو ہے
کہہ لیے رندؔ نے سب قافیے کوئی نہ چھٹا
انگریزی مگر اک قافیۂ غیر تو ہے
غزل
دید گل زار جہاں کیوں نہ کریں سیر تو ہے
رند لکھنوی