دید دنیا حباب کی سی ہے
اس کی تعبیر خواب کی سی ہے
ساقیا مے کہاں ہے شیشے میں
روشنی آفتاب کی سی ہے
پیرہن میں نمود تن سے ترے
ہلکی ایک تہ شہاب کی سی ہے
کس کا وصف دہن کیا تھا کہ آج
منہ میں خوشبو گلاب کی سی ہے
حالت اب دل کی ہجر میں معروفؔ
ایک شہر خراب کی سی ہے
غزل
دید دنیا حباب کی سی ہے
معروف دہلوی