دھیان کا راہی رک رک کر پیچھے تکتا ہے
بیتے لمحے یاد آتے ہیں دل روتا ہے
بند دریچے صف بستہ گم سم دیواریں
شہر کی ویرانی سے مجھ کو خوف آتا ہے
جانے لوگوں کی آوازیں کیا کہتی ہیں
جانے ہر جانب کیوں گہرا سناٹا ہے
کہتے ہیں آ آ کے مجھ کو اونٹوں والے
صحرا میں بجلی چمکی ہے مینہ برسا ہے
بڑھتے ہی جاتے ہیں دیواروں کے سائے
دھوپ کا سندر جوبن اب ڈھلتا جاتا ہے
پہروں بیٹھا ان کی باتوں کو سنتا ہوں
کاغذ کی تصویروں سے جی خوش ہوتا ہے
ہمدم ایسے لوگ کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں
جن کی باتوں سے دل کا غنچہ کھلتا ہے
غزل
دھیان کا راہی رک رک کر پیچھے تکتا ہے
جمیل یوسف