دھوپ رخصت ہوئی شام آئی ستارا چمکا
گرد جب بیٹھ گئی نام تمہارا چمکا
ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا مجھے
تم نے جب مجھ کو پکارا تو کنارا چمکا
مسکراتی ہوئی آنکھوں سے ملا اذن سفر
شہر سے دور نہ جانے کا اشارا چمکا
ایک تحریر کہ جو صاف پڑھی بھی نہ گئی
مگر اک رنگ مرے رخ پہ دوبارا چمکا
آج اک خواب نے پھر ذہن میں انگڑائی لی
اور طوفان میں تنکے کا سہارا چمکا
سازگار آنے لگی تھی ہمیں خلوت لیکن
جی میں کیا آئی کہ پھر ذوق نظارا چمکا
جھلملانے لگیں محفل میں چراغوں کی لویں
رخصت اے ہم نفسو صبح کا تارا چمکا

غزل
دھوپ رخصت ہوئی شام آئی ستارا چمکا
رباب رشیدی