EN हिंदी
دھوپ پیچھا نہیں چھوڑے گی یہ سوچا بھی نہیں | شیح شیری
dhup pichha nahin chhoDegi ye socha bhi nahin

غزل

دھوپ پیچھا نہیں چھوڑے گی یہ سوچا بھی نہیں

سلمیٰ شاہین

;

دھوپ پیچھا نہیں چھوڑے گی یہ سوچا بھی نہیں
ہم وہاں ہیں جہاں دیوار کا سایہ بھی نہیں

جانے کیوں دل مرا بے چین رہا کرتا ہے
ملنا تو دور رہا اس کو تو دیکھا بھی نہیں

آپ نے جب سے بدل ڈالا ہے جینے کا چلن
اب مجھے تلخیٔ احباب کا شکوہ بھی نہیں

مے کدہ چھوڑے ہوئے مجھ کو زمانہ گزرا
اور ساقی سے مجھے دور کا رشتہ بھی نہیں

دام میں رکھتا پرندوں کی اڑانیں لیکن
پر کترنے کا مگر اس کو سلیقہ بھی نہیں

مسکراہٹ میں کوئی طنز بھی ہو سکتا ہے
یہ مسرت کی علم دار ہو ایسا بھی نہیں

لاکھ یادوں کی طرف لوٹ کے جاؤں شاہینؔ
پردۂ دل پر اب اس شخص کا چہرہ بھی نہیں