دھوپ پیچھا نہیں چھوڑے گی یہ سوچا بھی نہیں
ہم وہاں ہیں جہاں دیوار کا سایہ بھی نہیں
جانے کیوں دل مرا بے چین رہا کرتا ہے
ملنا تو دور رہا اس کو تو دیکھا بھی نہیں
آپ نے جب سے بدل ڈالا ہے جینے کا چلن
اب مجھے تلخیٔ احباب کا شکوہ بھی نہیں
مے کدہ چھوڑے ہوئے مجھ کو زمانہ گزرا
اور ساقی سے مجھے دور کا رشتہ بھی نہیں
دام میں رکھتا پرندوں کی اڑانیں لیکن
پر کترنے کا مگر اس کو سلیقہ بھی نہیں
مسکراہٹ میں کوئی طنز بھی ہو سکتا ہے
یہ مسرت کی علم دار ہو ایسا بھی نہیں
لاکھ یادوں کی طرف لوٹ کے جاؤں شاہینؔ
پردۂ دل پر اب اس شخص کا چہرہ بھی نہیں
غزل
دھوپ پیچھا نہیں چھوڑے گی یہ سوچا بھی نہیں
سلمیٰ شاہین