دھوپ میں بیٹھنے کے دن آئے
پھر اسے سوچنے کے دن آئے
بند کمروں میں جھانکتی کرنیں
کھڑکیاں کھولنے کے دن آئے
دھان کی کھیتیاں سنہری ہیں
گاؤں میں لوٹنے کے دن آئے
بعد مدت وہ شہر میں آیا
آئنہ دیکھنے کے دن آئے
پھر کوئی یاد تازہ ہونے لگی
رات بھر جاگنے کے دن آئے
غزل
دھوپ میں بیٹھنے کے دن آئے
سنیل آفتاب