EN हिंदी
دھوپ میں بیٹھنے کے دن آئے | شیح شیری
dhup mein baiThne ke din aae

غزل

دھوپ میں بیٹھنے کے دن آئے

سنیل آفتاب

;

دھوپ میں بیٹھنے کے دن آئے
پھر اسے سوچنے کے دن آئے

بند کمروں میں جھانکتی کرنیں
کھڑکیاں کھولنے کے دن آئے

دھان کی کھیتیاں سنہری ہیں
گاؤں میں لوٹنے کے دن آئے

بعد مدت وہ شہر میں آیا
آئنہ دیکھنے کے دن آئے

پھر کوئی یاد تازہ ہونے لگی
رات بھر جاگنے کے دن آئے