دھوپ کے جاتے ہی مر جاؤں گا میں
ایک سایہ ہوں بکھر جاؤں گا میں
اعتبار دوستی کا رنگ ہوں
بے یقینی میں اتر جاؤں گا میں
دن کا سارا زہر پی کر، آج پھر
رات کے بستر پہ مر جاؤں گا میں
پھر کبھی تم سے ملوں گا راستو!
لوٹ کر فی الحال گھر جاؤں گا میں
اس سے ملنے کی طلب میں آؤں گا
اور بس، یوں ہی گزر جاؤں گا میں
میں کہ الزام محبت ہوں نبیلؔ
کیا خبر کس کس کے سر جاؤں گا میں
غزل
دھوپ کے جاتے ہی مر جاؤں گا میں
عزیز نبیل