EN हिंदी
دھوپ کے بھیتر چھپ کر نکلی | شیح شیری
dhup ke bhitar chhup kar nikli

غزل

دھوپ کے بھیتر چھپ کر نکلی

سوپنل تیواری

;

دھوپ کے بھیتر چھپ کر نکلی
تاریکی سایوں بھر نکلی

رات گری تھی اک گڈھے میں
شام کا ہاتھ پکڑ کر نکلی

رویا اس سے مل کر رویا
چاہت بھیس بدل کر نکلی

پھول تو پھولوں سا ہونا تھا
تتلی کیسی پتھر نکلی

سوت ہیں گھر کے ہر کونے میں
مکڑی پوری بن کر نکلی

تازہ دم ہونے کو اداسی
لے کر غم کا شاور نکلی

جاں نکلی اس کے پہلو میں
وہ ہی میرا مگہر نکلی

ہجر کی شب سے گھبراتے تھے
یار یہی شب بہتر نکلی

جب بھی چور مرے گھر آئے
ایک ہنسی ہی زیور نکلی

آتشؔ کندن روح ملی ہے
عمر کی آگ میں جل کر نکلی