دھوپ ایسی تیز دھوپ گرم ہے فضا بہت
ملیں گے چھاؤں ڈھونڈتے برہنہ پا خدا بہت
یہ راہ بے کنار بے پناہ خضر کی فغاں
بہت ملی تھی زندگی مگر ملی ذرا بہت
خزاں نصیب دور میں بہار کی تسلیاں
مگر وہ دل جسے ہے خار و خس کا آسرا بہت
انہیں خبر کرو کہ شام ہجر آ رہی ہے پھر
جنہیں وفائے عہد پر غرور و ناز تھا بہت
فریب آرزو پہ اور اعتبار کے لیے
اٹھاؤ جام وقت کم ہے وقت ہو چکا بہت
غزل
دھوپ ایسی تیز دھوپ گرم ہے فضا بہت
نیاز حیدر