EN हिंदी
دھوپ اب سر پہ آ گئی ہوگی | شیح شیری
dhup ab sar pe aa gai hogi

غزل

دھوپ اب سر پہ آ گئی ہوگی

آلوک مشرا

;

دھوپ اب سر پہ آ گئی ہوگی
کچھ نمی دشت میں بچی ہوگی

دل مسلسل ہی زخم کھاتا ہے
اس کی مٹی میں کچھ کمی ہوگی

تو بھی کچھ بد حواس لوٹا ہے
سانس رک رک کے ٹوٹتی ہوگی

چاند شب بھر دہک رہا ہوگا
نیند شب بھر پگھل رہی ہوگی

گھر کی دیوار تھی ہی بوسیدہ
اب کی بارش میں گر گئی ہوگی