EN हिंदी
دھوپ آئی نہیں مکان میں کیا | شیح شیری
dhup aai nahin makan mein kya

غزل

دھوپ آئی نہیں مکان میں کیا

مینا نقوی

;

دھوپ آئی نہیں مکان میں کیا
ابر گہرا ہے آسمان میں کیا

آہ کیوں بے صدا ہے ہونٹوں پر
لفظ باقی نہیں زبان میں کیا

ہو گیا نیل گوں بدن سارا
تیر زہریلے تھے کمان میں کیا

سارے کردار ساتھ چھوڑ گئے
آ گیا موڑ داستان میں کیا

جھلسا جھلسا ہے کیوں بدن سارا
آ گئی دھوپ سائبان میں کیا

نا شناسا ہے چاند سے کیوں دل
صرف تارا تھا آسمان میں کیا

روز و شب کس کی راہ تکتی ہو
میناؔ اب تک ہے کچھ گمان میں کیا