EN हिंदी
ڈھونڈتے پھرتے ہیں زخموں کا مداوا نکلے | شیح شیری
DhunDte phirte hain zaKHmon ka mudawa nikle

غزل

ڈھونڈتے پھرتے ہیں زخموں کا مداوا نکلے

جمیل ملک

;

ڈھونڈتے پھرتے ہیں زخموں کا مداوا نکلے
اس بھرے شہر میں کوئی تو مسیحا نکلے

اف یہ انبوہ رواں ہائے مری تنہائی
کہیں رستہ نظر آئے کوئی تم سا نکلے

چاند سے چہروں پہ پتھرائی ہوئی زرد آنکھیں
کوئی بتلاؤ یہ کس شہر میں ہم آ نکلے

پس دیوار کھڑا ہے کوئی تنہا کب سے
تو نہ نکلے ترے گھر سے ترا سایہ نکلے

جن پہ سو ناز کرے انجمن آرائی بھی
غور سے دیکھا تو وہ لوگ بھی تنہا نکلے

یہ ستاروں کے تڑپتے ہوئے سیمیں پیکر
جانے کب رات ڈھلے نور کا دریا نکلے

چاند سورج سے بھی تاریکی دوراں نہ گئی
دیکھیے پردۂ تخلیق سے اب کیا نکلے