ڈھونڈھتا ہوں روز و شب کون سے جہاں میں ہے
اک مکاں کہ روشن سا بستیٔ گماں میں ہے
سست رو مسافر کی قسمتوں پہ کیا رونا
تیز چلنے والا بھی دشت بے اماں میں ہے
خوش بہت نہ ہو سن کر ساحلوں کا آوازہ
اک فصیل پانی کی اور درمیاں میں ہے
لوٹنے نہیں دیتا یہ طلسم رستوں کا
جانتا ہوں میں ورنہ سکھ بہت مکاں میں ہے
راز کچھ نہیں کھلتا اس عجب نگر کا یاں
سود میں نہ تھا دن بھی رات بھی زیاں میں ہے
دیکھتا نہیں ہے کیا سات آسماں والا
کون دھوپ کے اندر کون سائباں میں ہے
غزل
ڈھونڈھتا ہوں روز و شب کون سے جہاں میں ہے
اعجاز گل