دھوم اتنی ترے دیوانے مچا سکتے ہیں
کہ ابھی عرش کو چاہیں تو ہلا سکتے ہیں
مجھ سے اغیار کوئی آنکھ ملا سکتے ہیں
منہ تو دیکھو وہ مرے سامنے آ سکتے ہیں
یاں وہ آتش نفساں ہیں کہ بھریں آہ تو جھٹ
آگ دامان شفق کو بھی لگا سکتے ہیں
سوچئے تو سہی ہٹ دھرمی نہ کیجے صاحب
چٹکیوں میں مجھے کب آپ اڑا سکتے ہیں
حضرت دل تو بگاڑ آئے ہیں اس سے لیکن
اب بھی ہم چاہیں تو پھر بات بنا سکتے ہیں
شیخی اتنی نہ کر اے شیخ کہ رندان جہاں
انگلیوں پر تجھے چاہیں تو نچا سکتے ہیں
تو گروہ فقرا کو نہ سمجھ بے جبروت
ذات مولیٰ میں یہی لوگ سما سکتے ہیں
دم ذرا سادھ کے لیتے ہیں پھریری تو ابھی
سون کھینچی ہوئی لاہوت کو جا سکتے ہیں
گرچہ ہیں مونس و غم خوار تگ و دو میں سہی
پر تری طبع کو کب راہ پہ لا سکتے ہیں
چارہ ساز اپنے تو مصروف بدل ہیں لیکن
کوئی تقدیر کے لکھے کو مٹا سکتے ہیں
ہے محبت جو ترے دل میں وہ اک طور پہ ہے
ہم گھٹا سکتے ہیں اس کو نہ بڑھا سکتے ہیں
کر کے جھوٹا نہ دیا جام اگر تو نے تو چل
مارے غیرت کے ہم افیون تو کھا سکتے ہیں
ہم نشیں تو جو یہ کہتا ہے کہ قدغن ہے بہت
اب وہ آواز بھی کب تجھ کو سنا سکتے ہیں
اے نہ آواز سناویں مجھے در تک آ کر
اپنے پاؤں کے کڑوں کو تو بجا سکتے ہیں
ہم تو ہنستے نہیں پر آپ کے ہنسنے کے لیے
اور اگر سانگ نہیں کوئی بنا سکتے ہیں
کالی کاغذ کی ابھی ایک کتر کر بیچا
زاہد بزم کے منہ پر تو لگا سکتے ہیں
گھر سے باہر تمہیں آنا ہے اگر منع تو آپ
اپنے کوٹھے پہ کبوتر تو اڑا سکتے ہیں
جھولتے ہیں یہ جو جھولی میں سو کہتے ہیں مجھے
ایک وعدہ پہ تجھے برسوں جھلا سکتے ہیں
ایک ڈھب کے جو قوافی ہیں ہم ان میں انشاؔ
اک غزل اور بھی چاہیں تو سنا سکتے ہیں
غزل
دھوم اتنی ترے دیوانے مچا سکتے ہیں
انشاءؔ اللہ خاں