دھول سے جب میں اٹ جاتا ہوں
راہ سے تھوڑا ہٹ جاتا ہوں
وقت کی دھار ہے میرے سر پر
روز ذرا سا کٹ جاتا ہوں
ہوں کوئی ملبوس پرانا
جگہ جگہ سے پھٹ جاتا ہوں
جس کے لیے ہوں جتنا ضروری
ویسے ہی میں بٹ جاتا ہوں
ہاتھ میں ہے یہ کس کے ترازو
تول میں روز ہی گھٹ جاتا ہوں
ہلکا سا اک ابر رواں ہوں
دھوپ میں جلدی چھٹ جاتا ہوں
پتا بھی ہل جائے کہیں تو
ڈر سے خود میں سمٹ جاتا ہوں
بحث غلط ہونے پر شاہیںؔ
آپ ہی پیچھے ہٹ جاتا ہوں
غزل
دھول سے جب میں اٹ جاتا ہوں
جاوید شاہین