دھند میں لپٹے ہوئے منظر بہت اچھے لگے
ٹمٹماتی روشنی میں گھر بہت اچھے لگے
زندگی کے راستوں پر رینگتے لوگوں کے بیچ
سر اٹھاتے بولتے کچھ سر بہت اچھے لگے
برف زاروں سے اترتے جھومتے دریاؤں میں
پانیوں کو روکتے پتھر بہت اچھے لگے
آج بھی باقی ہیں جن سے اس نگر کی رونقیں
دائروں کے بیچ وہ محور بہت اچھے لگے
زندگی تیری انا کو روند کر آتے ہوئے
بادشاہ وقت کو لشکر بہت اچھے لگے
مان کر بھی تم نے ہم کو عمر بھر مانا نہیں
کیا ہوا ہے آج ہم مر کر بہت اچھے لگے

غزل
دھند میں لپٹے ہوئے منظر بہت اچھے لگے
روی کمار