دھند میں ڈوبی ساری فضا تھی اس کے بال بھی گیلے تھے
جس کی آنکھیں جھیلوں جیسی جس کے ہونٹ رسیلے تھے
جس کو کھو کر خاک ہوئے ہم آج اسے بھی دیکھا تو
ہنستی آنکھیں افسردہ تھیں ہونٹ بھی نیلے نیلے تھے
جن کو چھو کر کتنے زیدیؔ اپنی جان گنوا بیٹھے
میرے عہد کی شہنازوںؔ کے جسم بڑے زہریلے تھے
آخر آخر ایسا ہوا کہ تیرا نام بھی بھول گئے
اول اول عشق میں جاناں ہم کتنے جوشیلے تھے
آنکھیں بجھا کے خود کو بھلا کے آج شناسؔ میں آیا ہوں
تلخ تھیں لہجوں کی برساتیں رنگ بھی کڑوے کسیلے تھے
غزل
دھند میں ڈوبی ساری فضا تھی اس کے بال بھی گیلے تھے
فہیم شناس کاظمی