دھواں صفت ہوں خلاؤں کا ہے سفر مجھ کو
اڑا رہی ہیں ہوائیں ادھر ادھر مجھ کو
میں اس کی آنکھ سے گر کر وجود کھو بیٹھا
وہ ڈھونڈھتا ہے بھلا کیوں ڈگر ڈگر مجھ کو
جواں ہوں حوصلے جس کے وہ میرے ساتھ چلے
کڑکتی دھوپ میں صحرا کا ہے سفر مجھ کو
بدن کو چھوڑ کے تیری تلاش میں نکلا
نہ روک پائیں گے رستے میں بحر و بر مجھ کو
ابھی کچھ اور تری جستجو رلائے گی
ابھی کچھ اور بھٹکنا ہے در بدر مجھ کو
وہ شوخ شوخ سی پنہاریاں کدھر کو گئیں
اداس کر گئی پنگھٹ کی رہ گزر مجھ کو
جنوں کے ادنیٰ اشارے پہ چونک جاتا ہوں
خرد کی بات کا ہوتا نہیں اثر مجھ کو
میں آسماں کی بلندی کو روند آیا ہوں
زمین والوں نے سمجھا شکستہ پر مجھ کو
اسی نے یاد دلائی ہے آج گوتم کی
رشی لگا ہے یہ سوکھا ہوا شجر مجھ کو
مٹا رہے ہیں مجھے میرے قاری و ناقد
کسی نے سمجھا کہاں حرف معتبر مجھ کو
میں اپنے وقت کا منصور بھی نہیں حسرتؔ
یہ لوگ کس لیے لائے ہیں دار پر مجھ کو
غزل
دھواں صفت ہوں خلاؤں کا ہے سفر مجھ کو
اجیت سنگھ حسرت