دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی
بدل گئے مرے موسم ترے بدلتے ہی
سمٹتے پھیلتے سائے کلام کرنے لگے
لہو میں خوف کا پہلا چراغ جلتے ہی
کوئی ملول سی خوشبو فضا میں تیر گئی
کسی خیال کے حرف و صدا میں ڈھلتے ہی
وہ دوست تھا کہ عدو میں نے صرف یہ جانا
کہ وہ زمین پہ آیا مرے سنبھلتے ہی
بدن کی آگ نے لفظوں کو پھر سے زندہ کیا
حروف سبز ہوئے برف کے پگھلتے ہی
وہ حبس تھا کہ ترستی تھی سانس لینے کو
سو روح تازہ ہوئی جسم سے نکلتے ہی
غزل
دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی
عباس رضوی