EN हिंदी
دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی | شیح شیری
dhuan sa phail gaya dil mein sham Dhalte hi

غزل

دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی

عباس رضوی

;

دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی
بدل گئے مرے موسم ترے بدلتے ہی

سمٹتے پھیلتے سائے کلام کرنے لگے
لہو میں خوف کا پہلا چراغ جلتے ہی

کوئی ملول سی خوشبو فضا میں تیر گئی
کسی خیال کے حرف و صدا میں ڈھلتے ہی

وہ دوست تھا کہ عدو میں نے صرف یہ جانا
کہ وہ زمین پہ آیا مرے سنبھلتے ہی

بدن کی آگ نے لفظوں کو پھر سے زندہ کیا
حروف سبز ہوئے برف کے پگھلتے ہی

وہ حبس تھا کہ ترستی تھی سانس لینے کو
سو روح تازہ ہوئی جسم سے نکلتے ہی